تحریر : محمد جواد حبیب کرگلی
حوزہ نیوز ایجنسی | آج پوری دنیا میں بالخصوص ہمارے ملک ھندوستان میں گرو نانک گرپورب(Guru Nanak Gurpurab) المعروف گرو نانک جینتی یا گُرو نانک پرکاش اُتسو تہوار ہو منایا جارہا ہے یہ ایک ایسا تہوار ہے جسے اکثر سکھ مناتے ہیں۔ یہ دن سکھ ہر سال پہلے گُرو ،بابا گُرو نانک کی ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ یہ سکھ دھرم کا مقدس ترین تہوار ہے۔
سکھ دھرم کی تقریبات و تہوار ان کے دس گُروؤں کی سال گرہوں یا برسیوں کے گرد گھومتے ہیں۔ دس گُرو سکھ دھرم کی وہ مذہبی اولین قیادت تھی جس نے سکھ دھرم کے عقائد اور اصول و ضوابط کی تشکیل کی تھی۔ ان کی سالگرہوں کو گُرپورب (Gurpurab)کہا جاتا ہے۔ یہ تہواری دن اور مواقع سکھ دھرم میں مراسم و قبولیت دعا اور تقریبات جشن بپا کرنے کے ہوتے ہیں۔ اس مناسبت پر ہم تمام سکھ دھرم کے پیروکاروں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اس موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے اسلام اور سکھ دھرم میں موجود کچھ شباہتوں پر بحث کرتے ہیں ۔
سکھ دھرم کا تعارف
سکھ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مرید یا تابع کے ہیں ۔ سکھ دھرم گورونانک کے بعد دس گورو پر مشتمل ہے جن میں آخری گورو گوبند سنگھ ہے۔ انہوں نے گورو (معلمین) کے سلسلے کے اختتام کا اعلان کیا۔
بانی مذہب کا تعارف
سکھ دھرم کے بانی گورونانک ۱۵ اپریل ۱۴۶۹ء کو لاہور سے چالیس میل دور گاؤں تلونڈی ضلع شیخوپورہ کے ایک کھستری مہتہ کالوچندکے گھر میں علی الصبح پیدا ہوئے (6)۔ ماں کا نام تریتا دیوی تھا۔ پانچ سال کی عمر میں سکول میں داخل ہوا اور ہندی اور پنجابی سیکھی۔ ایک معلم ملا قطب الدین سے فارسی پڑھی۔ سنسکرت بھی سیکھی۔ نانک نے پڑھائی کی طرف بالکل توجہ نہیں دی بلکہ ہر وقت سوچ وبچار میں ڈوبا رہتا۔
گرونانک کے بنیادی عقائد
گرو نانک کے عقیدے کو ''سکھی‘‘ کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی سیکھنا اور حاصل کرنا ہے۔ ان کی فکر پر بھکتی تحریک کے اثرات بھی نمایاں ہیں ہے جو اُن سے ایک صدی پہلے بھگت کبیر نے اپنے اشعار کی شکل میں پیش کیے۔ گرونانک کے عقیدے کے بنیادی اصول یہ ہیں:
ایک خالق اور خدا پر یقین،کسی بھی طرح کی بت پرستی کی اجازت نہیں،اجتماعی دعائیں، جہاں خدا کو یاد کیا جاتا ہے، وہ فرض ہیں، ذات پات کے نظام کی مکمل نفی اس یقین کے ساتھ کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں ، روحانی اور دنیاوی خواہشات کا حصول صرف مقدس اہداف نہیں ہیں بلکہ معاشرتی بہبود کے لیے بھی ضروری ہیں ،ایماندارانہ زندگی گزارنا اور ایماندار ذرائع سے معاش کمانا صحیح راہ پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہے۔
اسلام اور سکھ مذہب
گرو نانک کی تعلیم در حقیقت اسلام سے متاثر ہونے والی تحریک کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم اس میں نبی یا پیغمبر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ گرو صرف ایک رہنما ہے، یا جیسے صوفی اصطلاحات میں ، ایک مرشد ہے۔ سکھ مذہب میں شیطان کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا لیکن جب انسان روحانی اور دنیاوی تعاقب کے مابین توازن کھو دیتا ہے تو بد ظن یا باطل قوتیں سر اُٹھا لیتی ہیں۔ گرو نانک اس امر پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے اسی کی تعلیم بھی دی کہ وہ انسان جو گرو کی تعلیمات پر چلے، وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ جو لوگ اپنی ذاتی انا پر چلتے ہیں وہ اپنے خالق کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
سکھ دھرم اصل میں ہندومت کے بہت سے خرافات، پیچیدہ رسومات، ذات پات کے انسانیت سوز بندھن، مخلوق پرستی، بت پرستی اور فرضی دیوی دیوتاؤں کے خلاف وجود میں آیا تھا۔ برہمنوں کے تفوق اور مذہبی ورثہ پر ان کی جاگیرداری کو ختم کرنے کے لیے سکھ مت ایک مصلح کی شکل میں نمودار ہوا۔ ستی جیسے ظالمانہ رسوم کے خلاف سکھ مت میں آواز اٹھایا گیا۔ ان بنیادوں پر سکھ مت اسلامی تعلیمات کے انتہائی قریب آگیا کیونکہ اسلام بھی ان تمام ظالمانہ رسومات اور تعلیمات کا مخالف ہے۔ ظلم کے اس طلسم کو ختم کرنے کا احساس سکھ مت کو اسلامی معاشرےاور مسلمانوں کے مابین رہ کر ہی پیدا ہوا۔ صرف سکھ مت ہی نہیں بلکہ کئی ہندو مصلحین نے بھی ہندومت کے ان ظالمانہ تعلیمات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان تعلیمات کی تردید کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نانک صاحب نے شیخ اسماعیل بخاری، بابا فرید، علاؤ الحق، سید علی ہجویری جلال الدین بخاری اور مخدوم جہانیاں جیسے صوفیائے کرام اور بزرگوں سے صحبت فیض حاصل کی۔ اس وجہ سے ہی نانک صاحب کے مسلمان ہونے کا عقیدہ مسلمانوں میں چلا آرہا ہے ۔ گیانی گیان سنگھ نے لکھا ہے کہ نانک صاحب حج گئے تھے اور وہاں ولی ہند سے مشہور تھے ۔ گورو نانک نے اپنے علاقے کے مشہور پیر سید میر حسن سے بھی تلمذ کا شرف حاصل کیا تھا ۔ سکھوں کا مشہور گوردوارہ گولڈن ٹمپل ایک مسلمان صوفی حضرت سائیں میاں میر جی کی سعی سے وجود میں آیا ہے۔
سکھ دھرم اور اسلامی عقائد :
۱: توحید اور اللہ تعالیٰ کے صفات: سکھ دھرم توحید کا درس دیتا ہے۔ ہندومت کے لامحدود دیوی دیوتاؤں کی تردید کرتا ہے۔ نانک صاحب کہتاہے:
واحد مطلق وہ اللہ ہی فقط معبود ہے اپنے اوصاف سہ گانہ ہی میں موجود ہے۔
وہ محیط کل ہے برحق خالق وبیباک ہے بغض وکینہ عداوت سے سراسر پاک ہے۔
حق وہی موجود ہے اس وقت بھی آفاق میں تاابد باقی رہے گا حق ہی آفاق میں۔
اسی طرح توحید، اسلامی اعتقادات میں سب سے بنیادی عقیدہ ہے جس کے معنی خدا کو یکتا اور بے مثل مانتے ہوئے اس کائنات کی خلقت میں کسی اور کو خدا کا شریک قرار نہ دینا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے جب لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کیا تو آپؐ کی ابتدائی تعلیمات بھی خدا کی وحدانیت کا اقرار اور کسی کو خدا کا شریک قرار دینے سے انکار پر مشتمل تھی۔
۲: رسالت کا تصور اور محمد(ص)سے محبت اور عقیدت: سیدنا محمد(ص) کی پاک زندگی ہر کسی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
گورونانک صاحب رسول اللہ(ص)کو اپنا اسوہ حیات مانتے تھے۔ گورو نانک صاحب رسول اللہ(ص)کے بارے میں فرماتے ہیں:
How can he be saved from hell, who keeps not the prophet in the mind?
"جو پیغمبرﷺ کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ جہنم سے نجات حاصل نہیں کرسکتا"۔
ڈاکٹر تاراچند نے لکھا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نانک صاحب نے پیغمبر ؐکو اپنا اسوہ حیات بنایا تھا اور اس کی تعلیمات میں اس حقیقت کی گہری رنگ نظر آتی ہے۔
It is clear that Nanak took the prophet of Islam as his model and his teaching was naturally deeply coloured by this fact.
اسی طرح اسلامی تعلیمات میں نبوت کو اصول دین میں سے شمار کیا جاتا ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا مسلمان ہونے کیلئے شرط ہے۔ قرآن یا سنت نبوی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور دوسرے انبیاء کو پیامبران الہی کہا جاتا ہے۔ حضرت آدم ؑ سے نبوت کا آغاز ہوا اور قران کی تصریح کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم ہوئی ہے نیز اس عقیدے میں اہل سنت اور شیعہ ایک جیسا اعتقاد رکھتے ہیں۔
۳: قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں کی تصدیق: قرآن مجید کے بارے میں سکھ دھرم کہتا ہے:
کل پروان کتیب کران پوٹھی پنڈت رہے پوران
نانک ناؤں پھیا رہمان کرکرتا تو اکو جان
"قرآن پاک تمام کتابوں کا سردار ہے۔ کل یگ میں قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے۔ پوتھی پنڈت کا دور ختم ہے۔ اے نانک! نام صرف ایک رحمان (خدا) کا ہے جو سب کچھ کرنے والا ہے۔"
گرونانک ایک جگہ چاروں کتابوں کے بارے میں فرمایا:
توریت، انجیل، زبور تریہہ پڑھ سن ڈٹھے وید رہیا فرقان کتیبڑے کل یگ میں پروان
"میں نے توریت، انجیل، زبور اور وید پڑھ کر دیکھ لیے ہیں۔ قرآن مجید ہی دنیا کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا ہے"۔
اسی طرح مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے کہ قرآن دین اسلام کی مقدس کتاب ہے۔ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ وحی، جبرائیل کے ذریعے حضرت محمدؐ پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن کی آیتیں کو حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑوں پر پراکندہ طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد اکٹھا کرکے کتاب کی شکل دے دی گئی۔
۴: فرشتوں کا تصور: سکھ دھرم میں فرشتوں کا عقیدہ بھی پایا جاتاہے۔
طاعت حق میں ہے سدھ پیرو ملائک اولیاء
طاعت حق میں ہے اجرام فلک ارض وسماں
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فرشتہ یا ملک ایسی ما ورائے طبیعیات اور نا مرئی مخلوق ہے جو دنیا و آخرت میں خدا کے اوامر کو نافذ کرنے پر مامور ہیں۔ ملائکہ پر ایمان مسلمانوں کے عقائد کا حصہ ہے۔ مسلمان علما کا فرشتوں کی حقیقت کے بارے میں اختلاف ہے؛ متکلمین انہیں جسمانی موجودات سمجھتے ہیں جو مختلف صورتیں اختیار کر سکتے ہیں، مگر فلاسفہ انہیں غیر جسمانی قرار دیتے ہیں۔
علما ء اسلام کا عقیدہ ہے کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں، اس لیے خدا کے احکام کی نافرمانی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔ اسی طرح فرشتے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ان کی ذمہ داریاں یہ ہیں: عبادت، تسبیح خدا، نامہ اعمال لکھنا، پیغمبروں پر وحی نازل کرنا، انسانوں کی حفاظت، مومنین کی امداد، مادی و معونی رزق پہنچانا، روحیں قبض کرنا، دلوں کو ہدایت دینا اور اللہ کے عذاب کا اجرا کرنا وغیرہ ہے
۵: قیامت اور جزا وسزا کا تصور: گورونانک ہندومت کی طرح تناسخ کے قائل تھے لیکن اس کی تعلیمات میں قیامت کا تصور موجود ہے۔ اسلام کی طرح سکھ مت میں بھی قیامت کے دن حساب سے ڈرانے کا ذکر ہے:
Be in fear of that day when God will judge thee.
"اس دن سے ڈرو جب اللہ خود تمہارا قاضی ہوگا"
قیامت اسلامی تعلیمات میں اس دن کو کہا جاتا ہے جس میں تمام انسان دنیا میں انجام دئے گئے اعمال کے حساب و کتاب کے لئے اللہ کے حکم سے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونگے۔ قیامت سے پہلے مختلف واقعات رونما ہونگے جنہیں اشراط الساعہ کہا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ قیامت کے وقوع کے بارے میں خدا کے سوا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔اور قیامت کے دن انسان کے اعمال کو اس کے دینی پیشواؤں (پیغمبر اکرمؐ، ائمہ اور صالحین) کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا جس شخص کے اعمال جتنا ان ہستیوں کے اعمال کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھے گا اتنا ہی یہ شخص نیک اور سعادتمند ہو گا۔
۶: جنت ودوزخ کا تصور: سکھ مت میں اسلام کی طرح جنت ودوزخ کا تصور پایا جاتاہے۔ سکھ منی صاحب میں لکھا ہے:
Maya with its three qualities and all other entanglements was also created by him. Sins and virtues, hell and heaven come into existence.
"مایا (ہر غیر حقیقی چیز جو انسان کو مغالطہ میں ڈال دےجیسے بیوی، خاندان، دولت وغیرہ) کو اپنے تمام ماہیتوں کے ساتھ اللہ نے پیدا کیا۔ بدیاں ، نیکیاں، دوزخ اور جنت اس نے پیدا کیے"۔
اسی طرح بہشت یا جنت، مسلمانوں کے عقیدے میں عالم آخرت میں اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں اللہ کے نیک اور صالح بندے ہمیشہ کیلئے خدا کی نعمتوں سے مستفید رہیں گے۔ اور جَہَنَّم یا دوزخ وہ مقام ہے جہاں تباہ کار انسان مرنے کے بعد اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔ قرآن پاک میں جہنم یا اس کے مختلف طبقات کو مد نظر رکھتے ہوئے۔
۷: جزا وسزا کا تصور: سکھ دھرم کے مطابق نیک اعمال کا بدلہ نیک جب کہ برے اعمال کا بدلہ برا ہوگا۔ سکھ دھرم کے مطابق انسان کو ویسے ہی بدلہ ملتا ہے جس طرح وہ عمل کرتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے کھیت کے مشابہ ہے جس میں اگتا وہی ہے جسے بویا جائے۔
As man soweth, so shall he reap? His body is the field of acts.
اگر چہ سکھ دھرم میں جنت و دوزخ اور جزا وسزا کا تصور موجود ہے لیکن ہندومت کے عقیدہ تناسخ کے باعث یہ تصور اسلام کی طرح واضح نہیں ہے۔
اسلام کی تعلیمات میں قیامت کے دن انسان کے اعمال کے حساب و کتاب کے لئے جہاں اس کے اعمال مُجَسَّم ہو کر اس کے سامنے پیش ہونگے، وہاں نامہ اعمال بھی اسے دئے جائیں گے جس میں انسان کے تمام اعمال ضبط ہونگے۔ جس شخص کے نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دئے جائیں گے وہ اہل دوزخ اور جس شخص کے نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دئے جائیں گے وہ اہل بہشت اور فلاح پانے والا ہوگا۔ قیامت کے دن انسان کے نامہ اعمال کے ساتھ کچھ گواہ بھی پیش ہونگے جو اس کے اعمال کی گواہی دین گے۔اور اس کے مطابق اسکو جزا و سزاد یا جائے گا۔
۸: تقدیر کا تصور: اسلام میں تقدیر کے عقیدہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس عقیدے کا تصور سکھ دھرم میں بھی پایا جاتاہے۔ گورو نانک صاحب فرماتے ہیں:
حکم حق ہی سے ہے نیک وبد کا وابستہ ظہور ہیں مقدر حکم سے عالم کے سب رنج وسرور
حکم حق سے ہے مہیا ہر ایک کو لطف وعطا حکم حق سے ایک سرگرداں ہے مثل آسیا(چکی)
اسلام تقدیر کے تصور کو یوں بیان کرتا ہے قدر کا لغوی معنی اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے،اس سے مراد کائنات اور بنی نوع انسان کے احوال کا وہ علم ہے، جو اللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ۔ اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔‘
یہ ایک جھلک تھی ان دو مذاہب کے درمیان جسے بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔